دشمنوں کا مال اور خون

ابو بصیر نے فرمایا: ”میں نے امام صادق (ع) سے کہا: ”تو وہ کون ہے جو آپ لوگوں کے خلاف دشمنی کھڑی کرے؟“ تو انہوں نے فرمایا: ”نہیں، اے ابو محمد، جو بھی ہمارے خلاف ہے، اُس کا ہماری طرف تبدیل ہونے میں کچھ حصّہ نہیں ہے، اللہ ہمارے لیے اُن کا خون حلال کرچکا ہے ہمارے قائم (ع) کے قیام کے ساتھ، لیکن آج یہ ہم پر اور تم لوگوں پر حرام ہے تو کسی کو تمہیں دھوکہ مت دینے دو، اگر ہمارے قائم (ع) نے قیام کیا تو وہ اللہ کے لیے اور اُس کے رسول (ص) کے لیے اور ہم سب کے لیے بدلہ لے گا۔“ [بحار الأنوار تالیف مجلسی، جلد 52 صفحہ 376 حدیث 177]

روي في كتاب مزار لبعض قدماء أصحابنا عن أبي بصير قال قلت لأبي عبد الله عليه السلام: فمن نصب لكم عداوة؟ فقال: لا يا با محمد ما لمن خالفنا في دولتنا من نصيب إن الله قد أحل لنا دماءهم عند قيام قائمنا، فاليوم محرم علينا وعليكم ذلك فلا يغرنك أحد، إذا قام قائمنا انتقم لله ولرسوله ولنا أجمعين

محمد بن مروان نے کہا کہ امام صادق (ع) نے فرمایا: ”اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: ”جو شخص ہم اہل بیت سے بغض رکھے تو اللہ اسے یہودی [بنا کر] زندہ کرے گا۔“ کہا گیا: ”اے اللہ کے رسول (ص)، اور وہ دو شہادتوں [اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں] کی گواہی دے؟“ اُنہوں نے فرمایا: ”ہاں، ان دو کلموں سے وہ بس اپنا خون بہنے سے چھپاتا ہے۔“ [المحاسن تالیف برقی، صفحہ 90 حدیث 39]

عنه، عن محمد بن علي، عن الفضل بن صالح الأسدي، عن محمد بن مروان، عن أبي عبد الله عليه السلام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يهوديا، قيل: يا رسول الله وان شهد الشهادتين؟ – قال: نعم، إنما احتجب بهاتين الكلمتين عن سفك دمه

محمد بن حسین نے فرمایا کہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا: ”میرے بعد خوارج کا قتل مت کرنا کیونکہ جو شخص حق طلب کرے اور غلطی کردے، وہ اس کی طرح نہیں ہے جو باطل کو طلب کرے اور اس تک پہنچ جائے۔“ [وسائل الشيعة تالیف عاملی، جلد 15 صفحہ 83 – 84 حدیث 13]

عن محمد بن الحسن عن محمد بن الحسين عن الإمام عليه عليه السلام قال: لا تقتلوا الخوارج بعدي فليس من طلب الحق فأخطاه كمن طلب الباطل فأدركه

اعمش نے کہا کہ امام صادق (ع) نے فرمایا: ”کفار اور دشمنوں میں سے کسی کا قتل تقيّے میں جائز نہیں ہے سوائے قاتل يا پھر فساد لانے والے کا اگر تم اپنے آپ اور اپنے اصحاب کے لیے نہیں ڈرتے۔“ [الخصال تالیف صدوق، صفحہ 607 حدیث 9]

حدثنا أحمد بن محمد بن الهيثم العجلي، وأحمد بن الحسن القطان، ومحمد ابن أحمد السناني، والحسين بن إبراهيم بن أحمد بن هشام المكتب، وعبد الله بن محمد الصائغ، وعلي بن عبد الله الوراق رضي الله عنهم قالوا: حدثنا أبو العباس أحمد بن يحيى بن زكريا القطان قال حدثنا بكر بن عبد الله بن حبيب قال حدثنا تميم ابن بهلول قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن جعفر بن محمد عليهما السلام قال: ولا يحل قتل أحد من الكفار والنصاب في دار التقية إلا قاتل أو ساعي في فساد، وذلك إذا لم تخف على نفسك ولا على أصحابك

داود بن فرقد نے کہا: ”میں نے امام صادق (ع) سے کہا: ”دشمن کے قتل کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟“ اُنہوں نے فرمایا: ”[اُس کا] خون حلال ہے لیکن مجھے تمہارے لیے ڈر لگتا ہے، پس اگر اُس کے اُوپر قدرت رکھتے ہو کہ اُس پر دیوار گرادو یا پھر اُس کو پانی میں غرق کردو تو کردو اگر تم پر اس کے ساتھ کوئی گواہ نہ ہو۔“ میں نے کہا: ”آپ اس کے مال میں کیا دیکھتے ہیں؟“ اُنہوں نے فرمایا: ”تباہ کردو جس پر قدرت رکھتے ہو۔“ [علل الشرائع تالیف صدوق، جلد 2 صفحہ 601 حدیث 58]

أبي رحمه الله قال: حدثنا سعد بن عبد الله عن أحمد بن محمد عن علي ابن الحكم عن سيف بن عميرة عن داود بن فرقد، قال: قلت لأبي عبد الله عليه السلام ما تقول في قتل الناصب، قال: حلال الدم لكني اتقي عليك فان قدرت ان تقلب عليه حائطا أو تغرقه في ماء لكيلا يشهد به عليك فافعل، قلت: فما ترى في ماله، قال توه ما قدرت عليه

اسحاق بن عمار نے کہا کہ امام صادق (ع) نے فرمایا: ”دشمن کا مال اور ساری چیزیں جو اُس کی ملکیت میں ہیں، سب تمہارے لیے حلال ہیں سوائے اس کی عورت (بیوی) کے کیونکہ مشرکین کا عقد جائز ہوتا ہے اور یہ ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: ”مشرکین کی توہین نہیں کرو (شادی یا پھر عورتوں کے معاملے میں) کیونکہ ہر قوم کا نکاح ہوتا ہے۔“ اور اگر میں تم لوگوں پر ڈرتا نہیں کہ تم میں سے کوئی آدمی اُن میں سے (دشمنوں میں سے) کسی آدمی سے قتل ہوجائے گا، اور تم میں سے ایک آدمی اُن میں سے ہزاروں اور لاکھوں آدمیوں سے بہتر ہوتے ہوئے، ہم تم لوگوں کو اُن کا قتل کرنے کا حکم دے دیتے لیکن یہ امام کے طرف ہے۔“ [تهذيب الأحكام تالیف طوسی، جلد 6 صفحہ 387 حدیث 275]

عنه عن بعض أصحابنا عن محمد بن عبد الله عن يحيى ابن المبارك عن عبد الله بن جبلة عن إسحاق بن عمار قال: قال أبو عبد الله (عليه السلام): مال الناصب وكل شئ يملكه حلال لك إلا امرأته فان نكاح أهل الشرك جائز، وذلك أن رسول الله (صلى الله عليه وآله) قال: لا تسبوا أهل الشرك فان لكل قوم نكاحا، ولولا انا نخاف عليكم ان يقتل رجل منكم برجل منهم والرجل منكم خير من الف رجل منهم ومائة الف منهم لأمرناكم بالقتل لهم ولكن ذلك إلى الامام

معلیٰ بن خنیس نے کہا کہ امام صادق (ع) نے فرمایا: ”دشمن کا مال لے لو جہاں پر بھی تمہے مل جائے اور ہمیں اس کا خمس ادا کرو۔“ [تهذيب الأحكام تالیف طوسی، جلد 6 صفحہ 387 حدیث 274]

أحمد بن محمد عن علي بن الحكم عن فضالة عن سيف عن أبي بكر عن المعلى بن خنيس قال: قال أبو عبد الله (عليه السلام): خذ مال الناصب حيث ما وجدت وادفع إلينا خمسه

:توضیح

مخالفین (غیر شیعہ) میں سے جو لوگ کمزور نہیں ہیں اور اہل بیت (ع) سے بغض رکھتے ہیں، اُن کا قتل کرنا جائز ہے اور اُن کا مال چھین لینا جائز ہے لیکن تقیے کے حالات میں حرام ہے۔

Leave a Reply